Saturday 12 December 2015


کوہسار کا موسم سرما۔۔۔۔۔ کل۔۔۔اور۔۔۔۔آج


تحقیق و تحریر

محمد عبیداللہ علوی

***********************
یہ آرٹیکل روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد میں 14اکتوبر2015 کو کلر ایڈیشن میں شائع ہوا
اس کے علاوہ نیٹ پر بھی اس لنک پر دستیاب ہے
 کوہسار کا موسم سرما۔۔۔۔۔ کل۔۔۔اور۔۔۔۔آج

 ***********************

کوہسار کا موسم سرما میں جادوئی منظر۔۔۔۔۔ ردائے برف سے مستور کر دی ان کی پیشانی
  ***********************

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو ایک نہیں، دو نہیں بلکہ پانچ پانچ موسم عطا کئے ہیں، اہلیان کوہسار کیلئے ہر موسم اپنے اندر رعنائی اور دلکشی کا وافر سامان رکھتا ہے،یہاں پر موسم گُل کو ۔۔۔۔پھُل کھہلی۔۔۔۔ کہتے ہیں جب ہر طرف باغوں اور مرغزاراوں میں اوپر تلے خوشبو بکھیرتے پھول ہی پھول نظر آتے ہیں، برہیا (گرمیوں کا موسم) میں جب میدانی علاقے دھوپ کی تمازت سے تپ کر توا بن جاتے ہیں تو وہاں کے لوگ انہی کوہساروں کا رخ کرتے ہیں، بہتے جھرنے، شفاف پانی کی آبشاریں، قدرتی چشمے، لہلہاتے کھیت اور پھلوں سے لدے درخت جنت ارضی کا منظر پیش کرتے ہیں، پت جڑھ (موسم خزاں) کی زرد رنگت کا اپنا ہی ایک منظر ہے جبکہ موسم سرما میں جب یہ فلک بوس کوہسار برف کا سفید پیرہن اوڑھتے ہیں تو کوہسار ایک دلہن کا روپ لیلیتا ہے جو اپنی ڈولی میں بیٹھنے کی منتظر ہو۔

کوہسارکی خاتون لسی بنا رہی ہے
 مہنگائی کے ساتھ بڑھتی آبادی کے باعث آج جو منظر کوہسار پیش کر رہا ہے وہ ایک صدی پہلے تو ایسا نہ تھا، اگر ہم پہلی جنگ عظیم کے آس پاس کا کوہسار دیکھیں تو دسمبر کب کا برف کی چادر اوڑھ چکا ہوتا تھا، لوگ پائوں میں پُولیں (گھاس کے جوتے) اور ہاتھ میں ترھمچُوڑ (برف پھیکنے کا مخصوص بیلچہ) لئے گھر کی خاکی چھتیں دبا رہے ہوتے تھے،یہاں پر اسوج (ستمبر) میں لیتری (گھاس اور فصلوںکٹائی)  کے بعد لوگ ڈنہ (بلند صحت افزاء مقامات) سے ناولیوں (زیریں گرم علاقے) کی طرف بہکیں (عارضی سرمائی اور گرمائی نقل مکانی) لے آتے تھے، کاتک (اکتوبر) میں بیساکھ (مارچ) تک کیلئے لکڑیوں کی صورت میں ایندھن، اناج، گھی، مکھن اور گوشت کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کئی درجن مرغ اور چوزے پال لئے جاتے تھے جبکہ اجتماعی گُشٹی (ذبیحہ) بھی ہوتی تھی جہاں سے لوگ قیمتاً پوری پوری رانیں بھی اٹھا لاتے تھے۔بکریاں، گائے بیل اور بھینسیں عام تھیں اور دودھ کی خرید و فروخت کو پاپ (گناہ) سمجھا جاتا تھا اور ہر گھر میں لائیری (ممالیہ) گائے بھینس ہونے کی وجہ سے دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات کے کاروبار کی ضرورت ہی نہیں تھی، دودھ کو تقدیس کا درجہ حاصل تھا اور اسے اللہ کا نور کہا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ دودھ اور لسی بنانے کے آلات  اور برتن ڈولے، گلنیاں  اور مدھانی وغیرہ دھو کر اس کا پانی چھتوں پر انڈیلا جاتا تھا تا کہ اس کی بے ادبی نہ ہو۔
ایک شخص اپنے گھر کی چھت سے ترہمچوڑ سے برف صاف کر رہی ہے

جب کاتک میں بہکیں ناولیوں یا زیریں علاقو ں  میں آتیں تو سب سے پہلے صفائی کے ساتھ ساتھ چھتوں کے تاڑ (شہتیروں کے درمیان دیوار پر کھلی جگہیں) اور بچالے (دیواروں کے سوراخ) بند کر کے گھر کی خواتین ان کی لپائی کرتیں، چٹی مٹی (یہ آج کل کے چونے کا متبادل ہوتی تھی) سے دیواروں پر سفیدی پھیرتیں، دو یا تین فٹ فرش سے اوپر سرخ رنگ سے وہ بارڈر بناتیں، گاچی (چکنی) مٹی سے وہ تلن (فرش) بناتیں اور پھر اپنی سلیقہ شعاری کا اظہار اس پر گولائی میں بیٹری سیل والا سکہ پھیر کر کرتیں۔

سرنی۔۔۔۔۔۔ جہاں اہلیان کوہسار مویشی باندھتے ہیں
 کوہسار کی شکل ایسے ہے کہ یہاں موسم سرما میں شمال سے جنوب کی طرف رگوں میں خون منجمد کرنے والی ٹھنڈی ٹھار ہوائیں چلتی ہیں اس وجہ سے مکانات کا رخ جنوب کی طرف ہوتا ہے، جب برفباری ہو رہی ہو تو ہوا بند ہوتی ہے اور برفباری کے بعد ٹھنڈی ہوا چلتی ہے، ماگھ (جنوری) کے آخر میں ان ہوائوں کی تیزی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، اس جسم کاٹتی ہوائوں کو سوئڑیاں کہتے ہیں، سوہڑی مقامی زبان میں سوراخ کو بند کرنے کو کہتے ہیں، اگر گھر کی دیوار میں کوئی سوراخ ہو تو یہ تیز ہوائیں ان سوراخوں سے گزرتے ہوئے سیٹی کی آواز پیدا کرتی ہیں ، اس ہوائی کیفیت کو اہلیان کوہسار نے سولہ سولہ دنوں میں عہد قدیم سے ہی تقسیم کیا ہوا تھا، اس طرح انہیں ۔۔سولہ سوڑیاں سولہ سوہڑ اور سولہ انہاں اپر ہور۔۔ کہا جاتا تھا، اس زمانے میں جنگلات زیادہ ہونے کی وجہ سے شی (شیر) بھگیاڑ (چیتے) شیتڑمبھا (یہ وہ جانور تھا جو کتوں کا شکار کرتا تھا اور اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ نئی قبروں سے میت اٹھا کر لیجاتا ہے) گیدڑ، نول (نیولا)، سیغ (کانٹے دار جانور) اور پھنڈ (لومڑی) وغیرہ کی کثرت تھی اور یہ مویشیوں اور مرغیوں کو نقصان پہنچاتے تھے، اس وجہ سے گھر کے دو سے تین کمروں میں آدھا کمرہ مویشیوں کے لئے مختص ہوتا تھا جسے کوہال کہا جاتا تھا، جب بڑے بڑے مگھر (وہ لکڑی جو جلنے سے زیادہ حرارت دے اور زیادہ دیر تک جلتی رہے) سے کمرے سمیت ان کوہالوں کو بھی گرم رکھتے، پہلی جنگ عظیم کے بعد جب آبادی میں اضافہ ہوا تو گھر کے اندر یہ کوہال گھر کے آگے نشیب میں ایک اور کمرہ بنا کر شفٹ کر دی گئی اور اسے سرنی کہا جانے لگا۔

سردیوں کی سوغات۔۔۔۔۔۔۔۔ کوہسار میں ایک بچی لسی والا ساگ پکا رہی ہے
کوہسار میں سردی کے موسم کو ۔۔۔۔سیں آلا۔۔۔۔ کہتے ہیں، آج کے دور میں سیں آلے کا نام ہی سن کر سیں آل یعنی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہو جاتے ہیں جبکہ ایک سو سال قبل کوہسار میں سیں آلا سوٹزرلینڈ اور روس کی طرح سرمائی کھیلوں (Winter games) کا سیزن ہوتا تھا، اگرچہ کوہسار میں سکیٹنگ اور آئس ہاکی تو نہیں تھی مگر یہاں پر بچے چنجو، بلور، چھپن چھپائی، کلوک (چھپ کر آواز مارنا) اور نوجوان جنگل میں بن ککڑ، کانک (مرغابی) اورساہے (خرگوش) وغیرہ کا شکار کھیلنے نکل جاتے، واپسی پر سوختنی لکڑیوں کا ایک  
جندر۔۔۔۔ جس کا برسوں پہلے اہلیان کوہسار سے رشتہ ختم ہو چکا ہے
خشک گٹھا بھی ساتھ لاتے۔ اس عہد میں سب سے من پسند تفریح  جندر (پن چکی) پر اناج کی پسوائی کا پھیرا ہوتا تھا، ہر گائوں کے مضافات میں جندر چلانے کیلئے باقاعدہ خاندان آباد کئے جاتے تھے جن کا کام ہی یہی تھا کہ وہ جندر کو چوبیس گھنٹے چلانے کا بندوبست کریں، جندر آپریٹر جندرائی کہلاتا تھا اور وہ اناج کی کھل، توڑا یا گتھی (چمڑے اور کپڑے کے تھیلے) وصول کر کے ٹائم دے دیا کرتا تھا، اس وقت تک کوہسار کے یہ بانکے (Guyes) کھیتوں کھلیانوں میں کبڈی اور اٹی ڈنڈا (گلی ڈنڈا) کھیلتے، شور مچاتے اور جندر پر نہ ختم ہونے والی رونق لگی ہوتی،سردیوں میں اہلیان کوہسار زیادہ تر موٹھ، مونگھ کی دالیں اور مکئی کا دل (موٹی پسائی) کرواتے کیونکہ شدید سردی سے نمٹنے کیلئے ان کے پاس ایک ایسی حلوے کی ترکیب تھی جو بر صغیر میں اور کہیں نہیں تھی، یہ حلوہ ۔۔۔باٹ۔۔۔۔ کہلاتا تھا،اس میں دیسی گھی، خشک میوہ جات، چوزے کی یخنی اور پسے ہوئی دالیں اور موٹا پسا ہوا مکئی کا آٹا شامل ہوتا تھا، یہ باٹ کیا تھا یہ سردیوں کی وہ سوغات تھی جس کے اہلیان کوہسار نویکلے (بلا شرکت غیرے) مالک تھے اور ان کی جسمانی جسامت اوربہترین صحت کا راز بھی اسی میں تھا کہ وہ خالص غذا استعمال کرتے اور مشقت بھری زندگی میں آخری بار بخار ہوتا جو ان کی وفات کا سبب بنتا، انہی سردیوں کے موسم میں اہلیان کوہسار ڈیری مصنوعات کے مختلف استعمالات سے ان کی کیمسٹری بھی تبدیل کر دیتے، بوہلی (بچہ دینے والے جانور کے گاڑھے دودھ اور چاول سے بنائی جانے والی سوغات)، اوریا (لسی، کدو اور اوہر کے دانوں سے بن پکائے تیار ہونے والی ریسیپی) لسی میں پکائے جانے والے چاول اپنی سرد تاثیر بدل کر گرم ہو جاتے اورکے معاملات بھی انسانی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں، موسم سرما میں دونوں معاملات دقت طلب ہوتے ہیں کیونکہ برفانی ہوائیں کوہسار میں ہاتھوں کو شل کر دیتی ہیں، ہر طرف بارش کا پانی، اولے اور برف قبر کی کھدائی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں لیکن اگر ایک صدی اور اس سے قبل انسانی زندگی سے وابستہ ان ان معاملات کا جائزہ لیں  تو اس وقت کے ہمارے خیال میں پس ماندہ لوگوں کے پاس ان دونوں معاملات کا بہترین انتظام تھا، اتنے شدید موسم میں شادیوں سے احتراز کیا جاتا تھا مگر راقم الحروف کے بیروٹ میں ایک نانا غلام رسول شاہ عرف میاں کالا ہور کی پہلی شادی اسی سخت موسم اور رمضان المبارک میں ہوئی تھی، بارات بیروٹ سے پیدل بکوٹ گئی تھی، والدہ مرحومہ بتایا کرتی تھیں کہ بکوٹ پہچتے پہنچتے بارات میں شریک لوگوں کے پائوں شل اور بے حس ہو گئے تھے تا ہم دولہن کے گھر والوں نے افطاری میں بارات کا سواگت یخنی اور گھی کے پیالوں سے کیا تھا جسے وہ نوش جاں کر کے وہ اصل حالت میں آ گئے تھے، رات بارات وہاں ہی ٹھہری، بکوٹ کی مسجد میں نماز تراویح ادا کی، گھر کے اندر جلتے ہوئے الائو کی گرمائش میں شریعت (نکاح) ہوئی اور دوسرے روز  یخنی اور گھی کے ساتھ پراٹھوں سے   سرگی (سحری) کے بعد برفباری کے دوران وہ ڈولی کے ہمراہ واپس بیروٹ آئے۔ڈولی کے اندر دلہن کو گرم رکھنے کیلئے کانگڑی (کشمیری انگیٹھی) رکھی ہوئی تھی(کوہسار میں شادی غمی کی رسوم اور دیگر روایات پر اظہار خیال پھر کبھی سہی)۔




کوہسار میں سردیوں کے امراض میں نزلہ زکام تو عام بات تھی، پٓائوں پھٹنے کا مرض بھی عموماً خواتین میں زیادہ ہوتا تھا مگر جن خطرناک امراض سے سردیوں میں موت واقع ہوجاتی تھی ان میں نمونیا اور دمہ زیادہ تھا، نمونیا کا علاج برانڈی (شراب) سے اور دمہ یخنی اور بھاپ لینے سے کیا جاتا تھا، ایمرجنسی کیلئے ہر گائوں کے ہر گھر میں کاٹھ خفن (کفن) موجود ہوتے تھے یا اس کی ذمہ داری مقامی زمیندار کی ہوتی تھی کہ وہ اپنے مزارعین کی تدفین کا اجتماعی قبرستان میںؓ انتظام کرے، وفات ہوتے ہی قبرستان میں تمبو (ترپال) تان کر کھدائی شروع ہو جاتی تھی، اہلیان دیہ بالخصوص خواتین اور بچے ماتم والے گھر میں اپنی استطاعت کے مطابق لکڑیاں، شکر، گھی وغیرہ لے کر آتے تھے، یہ بھی امداد باہمی کی ایک صورت تھی بلکہ یہ نندرہ اور بھاجی  بھی ہوتی تھی،نماز جنازہ اور تدفین کے بعد مقامی مذہبی رہنما کی قیادت میں قبر پر چالیس روز تک چوبیس گھنٹے قرآن خوانی کا انتظام کیا جاتا تھا اور تعزیت بھی قبر پر ہی ہوتی


تھی،سردیوں میں اہلخانہ انہیں گرم رکھنے کیلئے  گرم ڈشز اور مشروبات کا انتظام کرتے تھے۔

سردیوں کے موسم میں پشمین (اون) کا لباس پہنا جاتا تھا جسے آپ چترالی چغہ اور حجاب بھی کہہ سکتے ہیں، مرد کمبل اوڑھتے تھے اور سر پر پگ، اسی سے مفلر کا کام بھی لیتے تھے،یوں بھی کوہسار میں اگرچہ کپڑوں کی کمی تھی مگر جو کپڑے بنائے جاتے تھے وہ ہر موسم کی ضروریات پوری کرتے تھے، سردیوں میں جو سُتھن یا تمبی (شلوار) پہنی جاتی تھی اس پر دس گز کپڑا لگتا تھا اور یہ چوڑی دار ہوتی تھی، پہرنی (قمیض) بھی کم و بیش چھ گز کی ہوتی تھی، مرد پوستین (چمڑے کا ویسٹ کوٹ اور کوٹ) کے ساتھ چھ گز کا کمبل اوڑھے رکھتے تھے جبکہ خواتین کا اونی چیڑا (دوپٹہ) بھی اسی سائز کا ہوتا تھا۔

سب سے اہم سوال جو آج کے نوجوان پوچھتے ہیں کہ اس وقت ریڈیو تھا نا ہی ٹی وی، انٹر نیٹ کا تو تصور بھی نہیں تھا تو وہ لوگ اپنا ٹائم کیسے پاس کرتے تھے۔۔۔۔۔؟ جی ہاں۔۔۔۔ ہمارے یہ بزرگ بہلے (فارغ) کبھی نہیں رہے نہ ہماری دادیاں، پڑدادیاں اور پڑ نانیاں ہی فارغ رہیں، اس کا اندازہ اس بات سے ہی کر لیجئے کہ نور پیر کے ویلے (اذان فجر کے وقت) سے لییکر ادھی رات تک ان کی مصروفیات میں گھر کی ضروریات کیلئے چشمے سے پانی کی فراہمی، صبح کا ناشتہ، کلیل (دس بجے صبح) کی اپنے گھر والوں کیلئے چائے، دوپہر کا کھانا، اور پھر شام کا کھانا، ہل لگنے کی صورت میں کھیت سے کھبل سمیت جڑی بوٹیوں کا صفایا، بچوں کی نگہداشت، گھر کی لپائی اور صفائی کے علاوہ سردیوں کی کالواخ تاریک اور طویل راتوں میں سوتری اور جت (بکریوں کے بال) کی بٹائی شامل تھی، پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ہماری مائوں بہنوں کے بیٹے، بھائی، والد اور شوہر طویل عرصہ تک محاذ جنگ سے واپس نہیں آئے تو یہ خواتین کورس (Corus) میں سوہلوں کی طرز پر ان راتوں میں ۔۔۔چن۔۔۔ گاتیں جس میںؓ اپنے ان مردوں کی جدائی میں فراق کا دکھ اور غم سمٹ کر آتا، یوں ڈھونڈی کڑریالی زبان (زبان کوہسار) میں ایک نئی صنف وجود میں آ گئی جسے چن کہا جاتا ہے (تفصیل کیلئے دیکھئے راقم الحروف کا محبت حسین اعوان کی کتاب اساں نیں نبی پاک ہور میں شائع شدہ مقالہ۔۔۔۔ ڈھونڈی کڑریالی زبان کا تاریخی جائزہ) ۔۔۔۔۔ مرد حضرات موسم سرما میں اپنے فارغ وقت میں  ہر گھر کے آگے بنے چوک پر بیٹھ کر دن کو گپ شپ کرتے اور رات کو محلے کے ایک گھر میں اوغرے (چاول کی پیچ)، یخنی کی چسکی اور حقے (کوہسار میں حقہ پہلی جنگ عظیم کے بعد آیا اور اس وقت یہ سٹیٹس سمبل بھی تھا) کی غڑ غڑاہٹ کے ساتھ کتاب پڑھتے اور سنتے، یہ کو ئی نصابی یا تاریخی کتاب یا قرآن حکیم کی تلاوت نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ ہیر وارث شاہ، سیف الملوک جیسی رومانوی داستان، داستان امیر حمزہ یا مذہبی کتب احوال الآخرت، قصیدہ غوثیہ، پکی روٹی، نور نامہ وغیرہ ہوتے تھے، کوئی بھی خوش الحان شخص اسے ترنم سے پڑھتا اور دیگر لوگ آنکھیں بند کر کے ثواب کے طور پر اسے سنتے اور تفریح پاتے۔ یوں صبح تک ان کا وقت اس طرح بسر ہوتا۔

کوہسار کا عہد قدیم ایک سنہرا دور تھا، دوستی راستی بے لوث تھی، ہمدردی کے ٹھاٹھیں مارتے جذبات تھے، کسی بھی گھر کی شادی ہو یا ماتم، پورا گائوں کا یہ سانجھا معاملہ تھا، دوستی اور دشمنی کے بھی اصول تھے جن پر آج کی منحوس سیاست کی پرچھائیاں بھی نہیں تھی، دل سے عزت کر کے عزت لینے کی امید بھی کی جاتی تھی۔۔۔۔۔ کوئی اگر یہ کہتا ہے کہ وہ لوگ نا خواندہ اور جاہل تھے تو اس لئے وہ ایک بہت بڑی غلطی پر ہے کہ وہ دانش کوہسار دیکھے، ان کے پاس موسمی تقاضوں کے عین مطابق ہر مسئلے اور مشکل کا حل موجود تھا اور آج ہمارے پاس آخان (کہاوتوں) کا جو سرمایا موجود ہے وہ ہمارے انہی بزرگوں کی زندگیوں کے تجربات کا نچوڑ ہے۔۔۔۔ اسی لئے تو آج کا انسان حسرت سے یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ۔۔۔۔ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔
روزنامہ آئینہ جہاں اسلام اباد
*************************
کوہسار کی سنو فال
کچھ کیلئے انجوائے منٹ اور ۔۔۔۔ کچھ کیلئے سرد یا منجمد جہنم ۔۔۔۔؟
----------------
اس موسم میں ۔۔۔۔ گاوا، مانژا اور بکری کے گوشت کے علاوہ ۔۔۔ موہشم طفل شیر خوار کی مائوں کیلئے ۔۔ اوجری، حلوہ اور باٹ بھی پکتا ہے
----------------

جو علاقے ۔۔۔۔ کے پی کے کے جنگلی حکام اور جنگلات کی قربت سے استفادہ نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ وہ پلوں میں ہی دبکنے کو ترجیح دیتے ہیں
----------------

ہمارے عمر رسیدہ بزرگوں کی بڈھیاں ہڈیاں جب شدید سردی میں کڑکتی ہیں تو وہ راتوں کو کھنکھارتے ہیں تو ۔۔۔ اپنی صالح اولاد ڈسٹرب ہونے کے باوجود ان کے اس عمل میں مداخلت نہیں کرتی اور دعائیں لیتی ہے ۔۔۔۔ سبحان اللہ
*************************


تحقیق و تحریر
محمد عبیداللہ علوی
جرنلسٹ، انتھراپالوجسٹ، مورخ اور بلاگر
**************************************

    کوہ مری ہو یا گلیات کی فلک بوس چوٹیاں ۔۔۔ کچھ تو موسم سرما میں یہاں آنے کیلئے پل پل گنتے ہیں اور خصوصاً برفباری کے موسم میں ۔۔۔۔ ان کیلئے ان علاقوں میں برفباری یا سنو فال بھی پہاڑی تفریح کا ایک انوکھا ذریعہ ہے جہاں وہ ایک دوسرے پر برف کے گولے پھینک کر دل پشوری کرتے ہیں ۔۔۔۔ برف کی مورتیاں بناتے اور ان کو کپڑے پہنا کر ان کے ساتھ سلفیاں بنانے کی انجوائے منٹ بھی کرتے ہیں ۔۔۔۔ عام دنوں کی نسبت سنو فال سیزن میں ہوٹلوں کے کئی سو فیصد زیادہ کرائے ادا کر کے بھی سنو فال کی رات اور اس کے ساتھ اس قدرتی سردی کو بھی اپنے اندر اتارنے کی کوشش کو بھی یادگاری لمحات میں بدلتے ہیں ۔۔۔۔ کئی تو ترڑ یا سلپ والی برفیلی سڑک کے کنارے ہی رات بسر کر لیتے ہیں اور کچھ یہاں پر گاڑیوں کو دھکے دے کر ۔۔۔۔ ہی اپنی سنو فال کی حسرت پوری کر لیتے ہیں ۔
    کیا اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور کے علاوہ کسی سیاح یا حکومتی پتش والے ایوانوں میں بیٹھے مالدار حکام کے علاوہ دھرتی ماتا کا قرض اتارنے والے مری شہر، گلیات اور سرکل بکوٹ کے پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کے فاضل صحافیوں میں سے ۔۔۔ کسی نے کبھی سوچا ہے کہ ۔۔۔ ان کے صحافتی بیٹ یا فرائض میں سیاحوں کی عیاشیوں اور مستیوں کی تصویر کشی، فلم بندی اور تحریری و صوتی براہ راست رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔ یہاں کے ان بے کس و بے بس غریب لوگوں کو موسمی سختیوں کے دوران حکومتی غفلت کے بارے میں بھی چند الفاظ میڈیا کے ذریعے گرم ایوانوں میں بیٹھے حکومتی حکام تہہ و بالا اور دیگر لوگوں تک پہنچاویں کہ ۔۔۔۔۔ ملک کے عیاش طبقے کیلئے کوہسار ۔۔۔۔ Entertainment Spot ۔۔۔۔ جبکہ یہاں کے بے وسائل لوگوں کیلئے یہی کوہسار ۔۔۔۔ سرد یا منجمد جہنم یا Frozen Hell ۔۔۔۔ بن جاتا ہے، جہاں سوختنی لکڑی موجود نہیں اور اگر ہے تو وہ ایک ہزار روپیہ فی من دستیاب ہے۔۔۔۔ پھر یہاں کے ہزاروں لوگ خود کو اور اپنے مویشیوں کو گرم کرنے کیلئے ۔۔۔۔ محمہ جنگلات کےجنگلی اہلکاروں سے ایک غیر تحریری معاہدہ بھی کر لیتے ہیں، اس طرح ۔۔۔۔ فارسٹ گارڈز، رینج آفیسر اور اسی طرح کے چھوٹے بڑے ۔۔۔ جنگلی اہلکاروں ۔۔۔ کی جہاں اتنے سرد موسم کی کالی کالواخ راتوں میں جیب اور مٹھی گرم رہتی ہے وہاں ہی جنگلات کی قیمتی لکڑی سے ،،،، سائلین،،،، کے چولہے، سرنیاں، بستر اور اندرون خانہ ماحول بھی تپشناک رہتا ہے ۔۔۔۔ لوہے کی انگیٹھیوں یا اوُلے والے چُلہے میں بلند ہوتے قیمتی لکڑی کے المبھے (شعلوں) پر رکھی لوہے کی گلنی یا مٹی کی کٹوی میں ۔۔۔۔ مانژا، بکری یا گاوا گوشت، یا ککڑ سمیت یخنی ابل رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔ بعض چولہوں پر موہشم بچوں کی مائوں کیلئے اوجری، حلوہ اور باٹ بھی اس موسم میں بڑے شوق سے پکتے ہیں ۔۔۔۔ اللہ رب العزت ضرورت مندوں کی اتنی بڑی ضرورت پوری کرنے پر ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ سے لیکر پشاور تک کے تمام چھوٹے بڑے ۔۔۔۔ جنگلی افسران ۔۔۔۔ کو ثواب دارین سے فیضیاب کرے ۔۔۔ ورنہ پتا نہیں کیا ہو جاوے ہے ۔۔۔۔؟
    کوہ مری میں ۔۔۔۔ تو حکومت پنجاب اپنے صارفین کو خشک سوختنی لکڑی فراہم کر کے دعائیں لیتی ہے ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے جنگلات کے قریب رہنے والے ،،،، کے پی کے اور ایبٹ آباد کے جنگلی حکام ۔۔۔۔ کے تعاون سے استفادہ کر لیتے ہیں مگر ۔۔۔۔ یو سی بیروٹ جیسے علاقے میں جہاں کے بے کس و بے بس لوگ لوڈ شیڈنگ زدہ قریبی شہروں میں بھی نہیں جا سکتے ۔۔۔۔جنگل بھی جن کی پہنچ سے خاصے دور ہیں ۔۔۔۔ اپنے ڈوغے باڑیوں میں بھی درختوں کا قحط ہے ۔۔۔۔ لے دے کے سلنڈر رہ جاتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن، لیکن ، لیکن ۔۔۔۔ ان سے تو ایک دن سے ایک سال کے ہر دس منٹ بعد گیلے ہونے والے ،،،، معصوم طفل شیر خوار ،،،،، کو تو گرم نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ ہمارے موسم سرما میں جی بھر کر ماضی میں عیاشیاں کرنے والے بزرگوں کی ۔۔۔۔ بُڈھیاں ہڈیاں ۔۔۔۔ بھی تپش تو مانگتی ہیں مگر ۔۔۔۔ تپش کے ذرائع جب No More کی صدا لگاتے ہیں تو وہ ۔۔۔۔ اسے اللہ کی رضا ۔۔۔۔ قرار دے کر نماز کا وقت ہو یا نہ ہو ۔۔۔۔ ٹھنڈے برفیلے پانی سے ووضو کر کے اللہ کے حضور سر بسجود ہو جاتے ہیں کیونکہ ۔۔۔۔ اس کے بغیر ان کے پاس کوئی آپشن بھی نہیں تو ہوتا ۔۔۔۔ وہ اس پر بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ۔۔۔۔ وہ آدھی رات کو جب کھنکھار کھنکھار کر اہل خانہ کا سکون اور نیندر غارت کرتے ہیں تو ۔۔۔۔ ان کی بڈھی اور وفا شعار تریمت، اس کے تیہاں پُتر اور دن بھر ان سب کی خذمتگار نوہہ سمیت ایک سال تک کے مو ہشم ۔۔۔۔ بھی کوئی اعتراض نہیں کرتے ۔۔۔۔؟ کیونکہ بقول شاعر ؎
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ،  ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سے آہ بھی نہ ہوئی
---------------------------
اتوار13/جنوری2019
 
 
 مزید مطالعہ کیلئے

تمدن کوہسار۔۔۔۔۔ تصاویر کے آئینے میں

کوہسار کا ثقافتی ورثہ